جنوبی ایشیا ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں معمولی واقعات بھی سنگین تنازعات میں بڑھنے کا خطرہ ہیں۔ پہلگام کے حالیہ واقعات نے ایک بار پھر بھارتی ریاستی اداروں کی طرف سے چلائے جانے والے گہرے بدنیتی، گمراہ کن بیانیے اور پاکستان مخالف ایجنڈے کا انکشاف کیا ہے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات یہ ظاہر کرتے رہتے ہیں کہ جو کشمیری بولتے ہیں، اختلاف کرتے ہیں یا بنیادی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پہلگام واقعے کے بعد درج کی گئی ایف آئی آر قانونی طور پر مشکوک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستان کو متاثر کرنے والے ایک مخصوص بیانیے کو تیار کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ تقریب کے چند منٹوں میں ہی، بھارتی خفیہ ایجنسی را سے منسلک جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان کے خلاف مربوط پروپیگنڈا گردش کرنے لگا۔ یہ تیز ردعمل کشمیریوں کی آواز کو خاموش کرنے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک پہلے سے طے شدہ منصوبے کی نشاندہی کرتا ہے – نہ صرف سیکورٹی کی غلطی۔
اس کشیدہ پس منظر کے درمیان، دو پاکستانی قیدیوں کو جموں جیل سے اچانک کسی نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی خبریں منظر عام پر آئیں، جس نے جعلی مقابلوں کے بھیس میں ممکنہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اس طرح کی زیادتیوں کی بارہا مذمت کی جاتی رہی ہے۔
اس بحران کو مزید پیچیدہ کرنے سے ہند-اسرائیل دفاعی تعاون بڑھ رہا ہے۔ بھارت میں اسرائیلی فوجیوں کی رپورٹس اور مقبوضہ کشمیر میں جدید ہتھیاروں اور نگرانی کے نظام کی تعیناتی ایک فوجی اتحاد کو نمایاں کرتی ہے جو مزاحمتی تحریکوں اور مسلم آبادی کو براہ راست نشانہ بناتا ہے۔ یہ شراکت داری قیاس آرائی پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قابل مشاہدہ ریاستی پالیسیوں پر ہیں جو اختلاف رائے کو کچلنے اور بنیادی حقوق کو کم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
کشمیر میں، غیر مسلح نوجوانوں کو محض نعروں یا سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کی وجہ سے طویل قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اکثر معتبر قانونی بنیادوں کے بغیر۔ اس کے ساتھ ساتھ، پانی کے حقوق پر بھارت کی دھمکی آمیز روش — جیسے پاکستان میں دریا کے بہاؤ کو محدود کرنے کی صلاحیت — زراعت اور وسیع تر ماحولیاتی نظام کے لیے شدید خطرات کا باعث ہے، جس کی بازگشت متعدد بین الاقوامی فورمز پر بھی سنائی دیتی ہے۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تجارت کی یکطرفہ معطلی نے لاکھوں لوگوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا ہے اور اس سے معاشی جنگ کو اس کے وسیع تر سیاسی ایجنڈے میں شامل کرنے کی حکمت عملی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات کشیدگی کو ہوا دیتے ہیں اور علاقائی استحکام کو مزید خطرے میں ڈالتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک تشویشناک حد تک تشویشناک ہے – جس میں مساجد کی بے حرمتی سے لے کر ٹارگٹڈ فسادات اور امتیازی قانون سازی تک – ملک کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کر رہا ہے جہاں مذہبی بالادستی جمہوری اصولوں پر غالب ہے۔ یہ انسانی حقوق سے متعلق عالمی گفتگو سے متصادم ہے، جسے بھارت برقرار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
بڑھتی ہوئی دشمنی کی مزید علامات میں فضائی حدود کی بندش اور شملہ معاہدے کی معطلی شامل ہے، جو کبھی پرامن حل کے لیے باہمی عزم کی علامت تھا۔ ایسے معاہدوں کو نظر انداز کرنا بھارت کی سفارتی بات چیت کو نظر انداز کرنے کا ثبوت ہے۔
اس کے جواب میں، پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا، جس میں کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کو جاری رکھنے کا عہد کرتے ہوئے اپنے دفاع کے لیے ملک کی تیاری کی تصدیق کی۔ اب محض مذمت کافی نہیں ہے – اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے اداروں سمیت عالمی برادری کو فیصلہ کن اقدام کرنا چاہیے۔ مسلسل خاموشی صرف جبر کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
اس نازک لمحے میں اتحاد، چوکسی اور لچک بہت ضروری ہے۔ پاکستانی قوم اور کشمیری عوام کو عزم کے ساتھ ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ چیلنجز بہت زیادہ ہیں، لیکن ہماری طاقت ہماری یکجہتی اور انصاف کے لیے ہمارے عزم میں ہے۔ ہمیں سچائی کو بڑھانا چاہیے، اپنی آواز بلند کرنی چاہیے، اور ہر عالمی پلیٹ فارم پر مزاحمت کا جھنڈا بلند رکھنا چاہیے۔